پرائمری سکولوں کی بندش اور محکمہء تعلیم کی لا پرواہی  :  تحریر: فتح اللہ

سے پہلے سے مخدوش پرائمری تعلیم بری طرح متاثر ہوتی ہے حالیہ تین دنوں سے پورے کے پی کے اور حصوصا چترال میں پرائمری سکولز مکمل طور پر بند ہیں اور بچوں کی تعلیمی ضیاغ ہورہی ہے اور تعلیمی عمل انتشار کا شکار ہے یہ بچوں کی بنیادی حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے یہ محکمہء تعلیم کی کارکردگی اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تمام اساتذئے کرام احتجاجا سکول بند کرکے سڑکوں پہ نکل ائے ہیں یہ کسی بھی مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ہے اساتذئے کرام بے شک اپنی مراعات اور دیگر سہولیات کا مطالبہ ضرور کریں لیکن نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرین اور سکولوں کی بندش اساتذئے کرام کے اس مقدس پیشے کا متقاضی نہیں ہے اور نہ یہ مہذب معاشرے کی عکاس ہے کسی بھی کام کو احسن طریقے سے کرنے کے لیے مذاکرات اور ٹیبل ٹاک بہترین حکمت عملی ہے بچوں کو ڈھال بناکر مراعات تو لیے جاسکتے ہیں لیکن استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ سڑکوں میں نہیں بلکہ کلاس روم کے بہترین ماحول میں استوار کیے جاسکتے ہیں محکمہء تعلیم کو چائیے کہ استادکی عزت اور اس پیشے کی تقدس کو ملخوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو بہتر مراعات دینے

 پرائمری سکولوں کی بندش اور محکمہء تعلیم کی لا پرواہی  :  تحریر: فتح اللہ


تعلیم ایک بنیادی حق ہے  اور بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے  کہ ہربچہ  کو تعلیم دی جائے اس مقصد کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں تاکہ قوم کا ہر بچہ زیور تعلیم سے اراستہ ہو اور ایک پرامن مفید شہری کے طور پر زندگی گزار نے کے  قابل ہو۔ تعلیمی اداروں میں پرائمری ایجوکشن بنیادی اہمیت کا حامل ہے  بچے کی اولین تربیت کی زمہ داری پرائمری ایجوکشن  کے دائرہء اختیار میں ہے  اور اس مقصد کے لیے  اساتذہ بھرتی کیے جاتے ہیں اور قومی خزانے سے ایک خطیر رقم ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں خرچ ہوتی رپی ہے اساتذہ کا بنیادی کام درس وتدریس ہے اور وہ اس مقدس پیشے کے نگہبان بھی ہیں اور  قومی ذمہ داری کے حامل بھی ہیں ہونا تو یہ چائیے کہ ان کی تنخواہ اور دیگر مراعات سب سے زیادہ ہو تاکہ وہ دلجمعی اور اطمینان کے ساتھ اپنی فرائض منصبی سر انجام دے سکیں لیکن وطن عزیز میں یہ طبقہ ہمیشہ اپنی  تنخواہ اور دیگر مراعات کولیکر احتجاج پر اتر اتے ہیں جسکی وجہ سے پہلے سے مخدوش پرائمری تعلیم بری طرح متاثر ہوتی ہے 

حالیہ تین دنوں سے پورے کے پی کے اور حصوصا چترال میں پرائمری سکولز مکمل طور پر بند ہیں اور بچوں کی تعلیمی ضیاغ ہورہی ہے  اور تعلیمی عمل انتشار کا شکار ہے یہ بچوں کی بنیادی حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے یہ محکمہء تعلیم کی کارکردگی اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے   کہ تمام اساتذئے کرام احتجاجا سکول بند کرکے سڑکوں پہ نکل ائے ہیں یہ کسی بھی مہذب معاشرے  کا شیوہ نہیں ہے  اساتذئے کرام بے شک اپنی مراعات اور دیگر سہولیات کا مطالبہ ضرور کریں لیکن نونہالان قوم کی تعلیم وتربیت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرین اور سکولوں کی بندش اساتذئے کرام کے اس مقدس پیشے کا متقاضی نہیں ہے اور نہ یہ مہذب معاشرے کی عکاس ہے کسی بھی کام کو احسن طریقے سے کرنے کے لیے مذاکرات اور ٹیبل ٹاک بہترین حکمت عملی ہے بچوں کو ڈھال بناکر مراعات تو لیے جاسکتے ہیں لیکن استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ  سڑکوں میں نہیں بلکہ کلاس روم کے بہترین ماحول میں  استوار کیے جاسکتے ہیں محکمہء تعلیم کو چائیے کہ استادکی عزت اور اس پیشے کی تقدس کو ملخوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کو بہتر مراعات دینے کو یقینی بنائیں تاکہ نونہالان قوم کی بہتر تعلیم وتربیت کو ممکن بنایا جاسکے۔

حکومت وقت محکمہ کے زمہ دران اور اساتذہ براداری سے  اپیل ہے کہ قوم اور ان ننھی کلیوں کی تعلیمی ابیاری کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی عمل کو جاری رکھا جائے تاکہ ایک علمی معاشرہ تشکیل پاسکے۔بچے اور استاد کلاس روم میں اچھی لگتے ہیں مراعات اگر کم بھی ہیں پھر بھی نونہالان  قوم کی خاطر قربانی دینا ایک اچھے معلم کی اوصاف میں شامل ہے۔حکومتی اہلکاروں اور محکمہء تعلیم کے ارباب حل وعقد سے دردمندانہ اپیل ہے   کہ اساتذئے کرام کے جائز مطالبات کو من وعن تسلیم کرکے کلاس روم کی رونقوں کو بحال کریں۔