چترالی کلچر

کیا چترالی کلچر واقعی پر امن اور مثالی ہے؟

چترالی ثقافت کے حوالے سے گزشتہ کئی برسوں سے گرما گرم بحث مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ایک جانب وہ ٹھیکیدار طبقہ ہے جو ہر نئی چیز کو ثقافت دشمنی سے تعبیر کرکے ان کے خلاف فتوے لگارہے ہیں تو دوسری جانب وہ نیو لبرل طبقہ ہے جو ہر ایک روایتی اقدار کو جڑ سے اکھاڑنے کی جستجو میں مصروف ہے ۔ مگر ان دنوں انتہاوں کی امیدیں کبھی بھی پوری نہیں ہوتی کیونکہ ایک جانب جہاں جدیدیت ایک آفاقی حقیقت کے طور پر خود کو منوا رہی ہے تو دوسری جانب قدیم ترین کلچرل نرمز بھی بدستور معاشرے میں اپنی جڑیں پیوستہ کئے ہوئے ہیں۔

چترال کے عورت دشمن ثقافت کے حوالے سے میرے دوست ظفر احمد کا مضمون خاصا طویل اور تھیوریز سے بھر پور تھا مگر سوشیالوجی کے ایک استاد ہوتے ہوئے موصوف  بعض مقامات پر کنفیوز نظر آئے ۔ چونکہ ہم جیسے "سوشلسٹ ملاؤں" کو بعض زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرنا ہوتا ہے تو میں ظفر بھائی کے مضمون میں موجودہ تضادات پر بات کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

میرے نزدیک ثقافت یا کلچر کوئی منجمد شے نہیں بلکہ کلچر دراصل کسی مخصوص علاقے میں رہائش پزیر لوگوں کے طرز بود و باش کو کہتے ہیں جس میں ان کا لباس، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، بول چال، ادب و شاعری و لوک روایات، موسیقی ، رقص و سرور العرض زندگی گزارنے کے سارے طور طریقوں کو کلچر کہتے ہیں۔ کلچر کوئی شو پیس نہیں  جسے شو کیس میں سجا کے رکھا جائے بلکہ کسی بھی مخصوص جغرافیائی وحدت میں رہائش پزیر لوگوں کی مجبوری  وضروریا ت نے کلچر کو جنم دیا ہے ۔ کلچرل ویلیوز کو سامنے لانے میں جغرافیائی و موسمی حالات کا سب سے زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ مثلا شوقہ یا جیل پوری ( کوٹ پتلون) پہننا چترالیوں کی کلچر اس لئے تھی کیونکہ اس لباس کے بغیر موسم سرما کا مقابلہ ناممکن تھا۔ اسی طرح لاژیک، ٹاربٹ، سناباچی، شینٹھیکی غاژا غاژی کھائے بنا چترال جیسے سرد علاقے میں زندہ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ہمارے موسمی حالات نےہمارے گھروں کی ڈیزائن سے لے کر ہمارے کھانوں اور لباس سے لے کر ہماری موسیقی و آلات موسیقی ، لوک روایات ، زبان اور ادب کو جنم دیا ہے ۔  ثقافت کوئی فیشن نہیں بلکہ زندگی گزارنےکے لئے درکار مواقع ، ضروریات اور مجبوریوں سے بننے والی مظہر کا نام ہے ۔

میرے دوست نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ

"میں ذاتی طور پر ڈرخائم کی تھیوری سے چترال میں نوجوانوں کی خودکشیوں کی وضاحت کر چکا ہوں۔ پرانے روایات اور اقدار ہمارے نوجوانوں کو پہلے جیسے معنی اور ریگولیشن دینے میں ناکام پڑ رہے  ہیں۔ خصوصاً تعلیم یافتہ اور باہر کی دنیا سے روشناس لڑکیوں کے لیے پرانے اپریسیو پدرسری اقدار سفوکیشن کا سبب بن چکی ہیں جو سرفسٹریشن اور انزائٹی کو جنم دے رہی ہیں۔ نوجوانوں کی خودکشیاں اس آئسبرگ کے سرے ہیں۔ سادہ الفاظ میں ہمارا کلچر اس جدید دور میں اپنی فرسودگی کے سبب نوجوانوں کو مطلوبہ معنی اور سماج میں سوشل آرڈر دینے میں ناکام پڑ رہی ہے۔"

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہمارے پرانے اقدار و روایات ہماری زندگی کو ریگولیٹ کرنے سے قاصر رہنے کی وجہ سے نوجوان خود کشی کررہے ہیں۔۔؟ میرے نزدیک یہ بیان جزوی طور پر درست بھی ہو مگر اسے کلی حقیقت نہیں کہہ سکتے ۔ میرے نزدیک نئی نسل کی زندگیوں میں جو خلا ء آئی  ہے اس کی وجہ بے مقصد تعلیم، بچوں اور بچیوں کو غیر ضروری لاڈ پیار دینا، سخت حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محرومی، غیر ضروری مقابلے کی دوڑ وغیرہ اس کی بنیادی وجوہات ہے۔

موصوف آگے جاکر لکھتے ہیں کہ

"ہم اپنی بیٹیوں کو پڑھاتے ہیں اور نوکری کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں لیکن کیا ہم نظریاتی طور پر اسے بچیوں کا حق سمجھتے ہیں؟ کیا ہمارے کلچر کے اقدار صنفی مساوات کو تسلیم کرتے ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔ تعلیم اور نوکری کی اجازت دینا ہماری معاشی مجبوریاں ہیں ورنہ نظریاتی طور پر ہم اتنے ہی فرسودہ ہیں جتنا کوئی قبائلی سماج ہو سکتا ہے۔"

یہاں بھی لیکچرر صاحب کلچر اور انسانی مجبوری دونوں کو الگ الگ نقطہ نگاہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔  حالانکہ کلچر ل اقدار انسانی ضروریات، مجبوریوں، موسمی حالات و واقعات ہی کی بنا پر وجود میں آتی ہے  کلچر کوئی خیالی تصور اور کتابی فلسفے کا نام نہیں۔ہماری معاشی و معاشرتی مجبوریوں نے زمانہ قدیم میں ہمارے طرز بودو باش کو تخلیق کیا اور اب بھی ہمارے اقدار انہی معاشی و معاشرتی مجبوریوں کا مرہون منت ہے یہی ہماری کلچر بن چکی ہے ۔

آپ کلچر پر تنقید ضرور کریں مگر کلچر کو انسانی ضروریات و ماحول سے الگ کرکے پیش کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔

اور ہاں چترال میں کوئی ایک کلچر کے لوگ آباد بھی نہیں یہاں تو ہر گاؤں کا کم و بیش الگ کلچر ظہور رکھتا ہے اسی لئے چیزوں کو جنرلائز کرکے کنفیوژن پھیلانے سے اجتناب کیا جائے ۔ آج تمام تر مشکل حالات کے باؤجود چترال  کا معاشرہ دوسرے قبائل کی نسبت خواتین کے لئے زیادہ بہتر ماحول فراہم کررہے ہیں۔ بلکہ بعض علاقوں میں خواتین کو تعلیم و تعلم میں لڑکوں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ یہ ہماری مجبوری ہے جو کہ ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی  ہے ۔ اور یہی کچھ انسانی نظریہ یا خیال بن کے سامنے آرہے ہیں  ۔

Jan. 10, 2021, 1:03 p.m. | کی تحریر ھے Ishpata News Urdu یہ