خالد بن ولی یادوں میں بسا وہ دوست

آج خالد بن ولی کی برسی ہے، اور دل پر ایک عجیب سا بوجھ ہے۔ خالد بن ولی کا نام  سنتے ہی دل میں ایک گہرا درد جاگ اٹھتا ہے۔

خالد بن ولی یادوں میں بسا وہ دوست

تحریر: انور کمال برکی

آج خالد بن ولی کی برسی ہے، اور دل پر ایک عجیب سا بوجھ ہے۔
خالد بن ولی کا نام  سنتے ہی دل میں ایک گہرا درد جاگ اٹھتا ہے۔


 اس شخص کا چترال کے ساتھ، اور خاص طور پر میرے ساتھ جو رشتہ تھا، وہ اتنا مضبوط تھا کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ خالد میری زندگی کا ایک اہم حصہ تھا۔ وہ نہ صرف میرا بہترین دوست تھا، بلکہ بھائی جیسا بھی تھا۔ چترال کے خوبصورت پہاڑوں کی طرح، خالد کا دل بھی وسیع اور محبت سے بھرا ہوا تھا۔ اج بھی جب میں شمال کی جانب دیکھتا ہوں تو خالد بن ولی کا چہرہ میری نظروں کے سامنے ا جاتا ہے..خالد بن ولی کا تعلق چترال کے ایک معزز گھرانے سے تھا. ان کے والد عبدالولی خان ایڈوکیٹ، ایک معروف شخصیت  ہیں، اور خالد ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے میدان میں بھی نمایاں رہے. خالد نے سول جج کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا، اور بعد میں پشاور میں  ای ٹی او (ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر) کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں. وہ اپنے پیچھے پسماندگان میں ایک بیٹی چھوڑ گئے ہیں، جو ان کی یادوں کی نشانی ہے..

لیکن خالد کی شخصیت کا کمال صرف اس کے پیشہ ورانہ کردار تک محدود نہیں تھا. وہ ایک غیر معمولی انسان تھا جس میں کئی خوبیاں تھیں. ظالم بلا کا حسین و جمیل بھی تھا اور
ایک بہترین شاعر، مصنف، اور کھلاڑی. وہ فٹبال کے میدان میں مہارت رکھتا تھا، اور پولو میں اس کی شرکت اور مہارت ہمیشہ سب کی توجہ کا مرکز بنتی تھی. اگر یوں کہا جائے کہ خالد بن ولی کی شخصیت میں گہرائی وسعت اور بے تحاشہ عاجزی تھی تو یہ مغالطہ نہ ہوگا..

ہم نے خالد بن ولی کے ساتھ یعنی میں اور ہمارے ایک دوست حماد خلیل نے خالد کے انتقال سے صرف چند روز پہلے اکٹھے نو دن کا یادگار لیکن اخری سفر کیا تھا،
جو ہمیشہ میری یادوں میں رہے گا. ہم پشاور سے چترال روانہ ہوئے اور چترال سے ایک قافلے کی صورت میں براستہ لاس پور جہاں عبدالخالق یفتالی صاحب کے ذاتی میوزیم میں ان کی مہمان نوازی کا لطف لیتے ہوئے براستہ شندور سے ہوتے ہوئے یاسین (گلگت) پہنچے.. پچاس سے ساٹھ افراد کا یہ قافلہ، خالد کی موجودگی میں ایک خوبصورت رفاقت کا رنگ لیے ہوا تھا. ہم وہاں پولو ٹورنامنٹ کے لیے گئے تھے، اور وہ نو دن کا سفر زندگی کے سب سے خوبصورت لمحات میں سے ایک تھا.

گلگت کے شہر یاسین اور طاؤس میں ہم نے جو اکٹھے نو دن گزارے تھے  جہاں ہم نے ایک ساتھ ہنسی مذاق، باتیں، اور کھیلوں میں حصہ لیا، کبھی بھلایا نہیں جا سکتا. خالد کی موجودگی نے ہر لمحے کو خاص بنا دیا تھا۔ اور پھر واپسی پر، ہم براستہ گلگت واپس آئے، جہاں ہم نے اپنے دوست ای ٹی او گلگت جناب مزمل صاحب جو ہمارے ایک جگری یار ہیں کے ساتھ ایک دن گزارا. گلگت کا وہ دن، اس کی خوبصورتی، اور خالد کی موجودگی کبھی نہ بھولنے والے لمحات میں سے ہیں. خالد کی موت ایک حادثے میں ہوئی،
میں اج بھی اللہ کا شکر گزار ہوں کہ میں اور میرے دوست حماد خلیل اور کرنل غازی ڈی ائی خان سے 14 گھنٹے کا نان سٹاپ سفر کر کے خالد کے اخری دیدار اور جنازے کے لیے چترال پہنچ گئے تھے ورنہ یہ ملال تا حیات ہم اپنے ساتھ  لیے پھرتے.. چترال کے پولو گراؤنڈ میں اس کا چترال کی تاریخ میں سب سے بڑا جنازہ تھا. وہاں قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی، چترال کے تمام لوگوں نے خالد بن ولی کی جنازے میں شرکت کر کے اس سے بے پناہ محبت کا حق ادا کر دیا تھا اور ہر شخص اپنے محبوب دوست کو الوداع کہنے آیا تھا. وہ لوگ جنہوں نے خالد کو دل سے قدر کی، وہاں موجود تھے.. خالد کی جدائی نے میرے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے.. کبھی کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں خالد سے نہ ملا ہوتا، تو آج یہ درد بھی نہ ہوتا. لیکن پھر میں شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے خالد جیسے دوست کی رفاقت عطا کی. اس کے ساتھ گزرے لمحات میری زندگی کی سب سے خوبصورت یادیں ہیں. آج جب چترال میں میرے سینکڑوں دوست اور ہزاروں جاننے والے ہیں، لیکن اس دوستی کی بنیاد شاید خالد بن ولی ہی ہے.. وہ میری زندگی کا ایک ایسا حصہ تھا جسے کوئی کبھی نہیں بھر سکتا.. خالد تمہاری یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ تمہاری محبت، تمہاری شخصیت، اور وہ لمحے جو ہم نے ساتھ گزارے، ہمیشہ ہمارے دلوں میں محفوظ رہیں گے۔ اللہ تمہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ تمہاری یاد ہمیشہ ہمیں تمہاری عظمت اور محبت کی یاد دلاتی رہے گی..